اناللہ واناالیہ راجعون
آہ آفتاب شیخ آپ بھی ہمیں چھوڑگئے
ایم کیوایم کے رہنما اورسابق میئرحیدرآباد کی تنظیم کیلےقربانیاں نا قابل فراموش

آفتاب شیخ پیپلز پارٹی چھوڑ کرایم کیوایم میں شامل ہوئے
آپریشن 92 سمیت آفتاب شیخ نے ہرمشکل وقت میں ایم کیو ایم کی رہنمائی کی
تحریر*آغاخالد
یہ غالباً 1986/87 کی بات ہے میں سکھرسےکراچی کےماہنامہ صورت میگزین اورروزنامہ اعلان کانمائندہ تھاکہ حیدرآباد میں کےیوجے(دستور)کاصوبائی کنونشن ہواہمارےاستادمحترم جنگ کےسکھرسےنمائندےعلی اخترجعفری نےکہاحیدرآبادکنونشن میں چلناہےاوریوں ہم کنونشن میں شریک ہوگئےشروع سےتنظیمی سیاست سےنہ شغف تھانہ کبھی توجہ دی عہدیےحاصل کرنےسےزیادہ اچھااورکامیاب رپورٹربننےکاجنون تھااوریہ دوڑآج بھی جاری ہے،بعدمیں اکثردوستوں نےدستوری کےکنونشن میں شرکت پرناراضگی کااظہارکیاتوہم نےاستاد محترم جعفری صاحب تک دوستوں کا شکوہ پہنچایا۔۔وہ حسب عادت سیخ پاہوگئےاور دوچارموٹی موٹی گالیاں بک کربولے
سالےبرناوالےہم اندرون سندھ کےصحافیوں کوممبرشپ دیتے کب ہیں وہ توبس کراچی کےصحافیوں کوہی اصل صحافی سمجھتےہیں بھئی جوہمیں ممبرشپ دےگاہم اسی کےگن گائیں گےچاہےوہ دستوری ہویالائلپوری۔۔۔
کنونشن کےانتظامات بہت شاندارتقاریربھی عمدہ تھیں زیادہ مقررین جماعت کےحوالےسے پہچانے جانےوالےصوبےکےسینیرصحافی ہی تھےمگرالوداعی تقریب کےمہمان خصوصی آفتاب شیخ تھے۔۔۔اوریہ تصویراسی الوداعیہ کی ہے،

آفتاب شیخ پپلزپارٹی میں ہوتےتھےاوراس کےحیدرآبادسےبھاری بھرکم لیڈرتھےاوراسی کےٹکٹ پروہ حیدرآباد بار کےصدربھی منتخب ہوئےتھےاس طرح وہ1987 میں مرکزی دھارے کی پارٹی چھوڑکرقوم پرست سیاست میں شامل ہوگئےکیونکہ 1986 کی سندھ کی شہری سیاست نےجوکروٹ لی تھی وہ پی پی کی مقامی قیادت کوہضم نہیں ہورہی تھی جوبھٹودورسےسندھ میں دورخی سیاست کرہی تھی پنجاب یاپاکستان کےدیگرعلاقوں میں وہ پاکستانیت کانعرہ لگاتی اورسندھ میں جئےسندھ کی سیاست کرہی تھی جبکہ اس وقت کی پپلزپارٹی میں نئےسندھیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی جواس کےاس رویہ کی وجہ سےآہستہ آہستہ کم ہوتی گئی اورآفتاب شیخ بھی اسی رویہ کی وجہ سے قومی دھارے سےکٹ کرلسانی سیاست کاحصہ بنےبہرصورت اس پراوران دنوں کےسیاسی حالات پرمحترم مختارعاقل بہت تفصیل سے اورجامع لکھ چکےہیں میں ان کےسامنےطفل مکتب ہوں اوراس وقت میراموضوع بھی یہ نہیں،
آفتاب شیخ ان دنوں حیدرآبادہی کی ہی نہیں سندھ کی معروف اورقدآورشخصیت تھے جیدرآبادبارکےسربراہ ہونےکےناطےانہیں جوقدرومنزلت حاصل تھی وہ واقعی الطاف حسین سےکہیں بڑھ کرتھی جو1986 کےنشترپارک کےجلسہ سےاچانک ابھرکرسیاسی افق پرنمودارہوئےتھےاوربڑے بڑے سیاسی جگادریوں کوورطہ حیرت میں ڈال دیاتھامگرابھی ان کاسندھ کی سیاست میں قدنوآموزسیاستداں ہی کی طرح تھابہ نسبت آفتاب شیخ کےاس لئےلوگ پریشان تھےکہ آفتاب شیخ جو پی پی کی متعصبانہ سیاست سےبیزارتوتھے ہی اوراسےالوداع کہنےکی خبریں بھی چہ میگوئیوں سےکہیں آگے بڑھ چکی تھیں اگرانھوں نےنئےسندھیوں کی الگ تنظیم بنالی تومہاجراتحاد ہونےسےپہلےہی ٹکڑیوں میں بٹ جائےگااوراگروہ ایم کیوایم میں آتےہیں توان کےشایان شان عہدہ کیاہوسکتاہے اورکیاالطاف حسیں ان کےقدکوتسلیم کرتےہوئےانہیں منصب دینےپرآمادہ ہونگے یہ بلکل وہی صورت حال تھی جو2012 میں عمران خان اورجاویدہاشمی کےدرمیان تھی،

کیونکہ عمران کومقبول لیڈربنانےکےلئےدوسری جماعتوں سےقدآورشخصیات کوسمیٹ کران کی چھتری تلےجمع کیاجارہاتھااوراس موقع پروہ پاکسان میں سول بالادستی کی جدوجہدکےبانی اورعظیم رہنماجاویدہاشمی کوبھی نون لیگ سےتوڑکرورغلانےمیں کامیاب توہوگئےمگروہاں بھی یہی سوال منہ پھاڑے کھڑاتھاکہ اس وقت عمران سے بڑالیڈرجاویدہاشمی عمران کی قیادت کیونکر قبول کرےگااورکیاعمران اس جیسے منہ پھٹ اورسچےسیاسی رہنماکوبرداشت کرپائےگااورپھرہوا بھی وہی جس کاوسوسہ تھاعمران جیسےبدطینت اورجھوٹے انسان سےہاشمی جیسےاصول پرست کی چندسال بھی نہ نبھ سکی ،
مگرسندھ میں تومہاجرقوم کی بقاء کاسوال تھاشایداسی لئےآفتاب شیخ نےموتیوں سےلکھاجانےوالافیصلہ کیاکہ وہ نہ کوئی الگ جماعت بنائیں گےاورنہ ہی وہ ایم کیوایم میں کسی عہدہ کےمتمنی ہیں یہ کہ کرانھوں نے غیرمشروط طورپرالطاف حسین کی قیادت قبول کرلی جس سے ایم کیوایم اندرون سندھ بھی ایک مضبوط جماعت بن کرابھری اورسندھ کی سیاست کے بونےالطاف حسین کاقد بھی بڑاہوگیاجوبعد میں واقعی ایم کیوایم میں سب سے بڑااوربھاری ہوگیاتھا بعدمیں آفتاب شیخ ایم کیوایم کی طرف سےمیئرحیدرآبادبھی منتخب ہوئےاوراس عہدہ پرفائزتھےکہ 1988میں جئےسندھ کےدہشت گردوں نےان پرقاتلانہ حملہ کیا جس میں آفتاب شیخ بری طرح گھائل ہوئےڈاکٹروں نےابتدائی مرحلہ میں ان کی زندگی کےبارے میں مایوس کن خبریں دیں مگربہادر آفتاب شیخ موت کوشکست دےکرندگی کی بہاروں میں لوٹ آئے اس وقت شاید انہیں اپنوں نےزخم نہ دئےتھے ،

اتنی قربانیوں کےباوجودکم ظرف الطاف حسین نےپھربھی انہیں کبھی دل سےقبول نہیں کیااورقدآورآفتاب شیخ سے وہ ہمیشہ خوف زدہ رہااوربالاآخرنائن زیروپراپنےپالتودہشت گردوں کےذریعےنہ صرف ان کی توہین کروائی بلکہ انہیں تشدد کانشانہ بھی بنایاگیاجس پروہ بہت زیادہ دل برداشتہ ہوئےاورسیاست سےکنارہ کشی کرلی حالانکہ وہ چاہتےتودوسرےکئی کم ظرف لوگوں کی طرح مخبربن جاتےالگ پارٹی یادھڑا بنالیتےمگرانھوں نےیہ سب کرنےکی بجائےکنارہ کشی کرلی اوربقیہ زندگی گوشہ نشیں رہے یہ ہے اس آفتاب شیخ کی عظمت کازندہ ثبوت جوآج ہم سب کو اداس چھوڑکراس دارفانی سے کوچ کرگئے اور نئےسندھیوں کی نوجواں نسل کےلئےاپنےپیچھےاعلی اخلاقی قدروں اوراصولوں کی مثالیں چھوڑگئے۔
Comments
Post a Comment