روز بیوٹی سےہرسال 15 ہزار دلہنیں تیارہوتی ہیں
روز بیوٹی پارلرکی متعدد برانچوں میں250 بیوٹی ایکسپرٹس
شیخ محمد احسان اوران کی اہلیہ فرحت احسان بیوٹی اندسٹری کے نمایاں کردار
کورونا کے معاشی بحران میں ملک میں کئی ادارے بند ہوئے
روز بیوٹی پارلرانتظامیہ نے کسی ملازم کو نکالا نہ کسی کی تنخواہ کاٹی
تحریر : آفتاب اقبال
آپ میں سے اکثر، شاید ہنستے مسکراتے ان میاں بیوی سے نہیں واقف ہوں گے لیکن مان لیجیے کہ یہ دونوں کمٹ منٹ اور معیار کی چلتی پھرتی تصویریں ہیں۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ دونوں پاکستان میں بیوٹی انڈسٹری کے اولین معماروں میں سے ہیں۔ گزشتہ چالیس سال سے ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ، لاکھوں گھرانوں میں خوشیاں، خوشحالی اور امیدیں بھرنے کا جو کام انہوں نے کیا ہے، وہ حیران کُن ہے۔
شیخ محمد احسان اور ان کی اہلیہ محترمہ فرحت احسان پاکستان کے سب سے بڑے بیوٹی انسٹی ٹیوٹ 'روز' یعنی گلاب کے بانی ہیں۔ اگر آپ روز بیوٹی پارلر جو ترقی کرکے روز بیوٹی انسٹی ٹیوٹ بن گیا ہے، سے واقف نہیں ہیں تو میں آپ کو اس کا مختصر تعارف کرادیتا ہوں۔
روز بیوٹی انسٹی ٹیوٹ ہر سال پندرہ ہزار سے زیادہ دلہنیں تیار کرتا ہے۔ کراچی میں اس کی کئی برانچوں پر ڈھائی سو سے زیادہ بیوٹی ایکسپرٹس کام کرتے ہیں۔ کراچی کے گھر گھر اور گلی گلی میں ان کے ادارے کے پرستار موجود ہیں۔ لیکن روز کوئی عام بیوٹی پارلر نہیں ہے بلکہ اب پورا کارخانہ بن گیا ہے جہاں بیوٹی انڈسٹری کے تمام لوازمات موجود ہیں۔

مثال کے طور پر، یہ ادارہ پاکستانی مطبوعات کی سب سے بڑی تعداد کو بیوٹی سپورٹ مہیا کرتا ہے اور پاکستان کے تمام بڑے اخبارات، رسالے اور ویب سائٹس کے ٹائٹلز پر روز بیوٹی پارلر کی تیار کردہ فیشن ماڈل کی تصویر ہوتی ہے۔ ہر ماہ یہ ادارہ، اردو اور انگریزی کی 42 نمایاں پبلی کیشنز کو گلیمر ماڈلنگ کی مفت مدد مہیا کرتا ہے جن میں روزنامہ جنگ، ایکسپریس، اخبار جہاں، فیملی میگزین، خواتین ڈائجسٹ، پاکیزہ ڈائجسٹ، کرن، شعاع اور ایسی ہی نہ جانے کتنے بڑے ادارے شامل ہیں۔ ہم اور آپ اتوار کے میگزین ایڈیشن کے ٹائٹل اور سینٹر اسپریڈ یا درمیانی صفحات پر جو خوش اندام، دل آویز ماڈل کی تصاویر دیکھتے ہیں، وہ روز ہی تیار کرتا ہے۔ پاکستان کے نام ور ترین فوٹوگرافر جناب موسیٰ رضا کے ساتھ ان کا برسوں کا اشتراک ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر یہ ادارہ اپنی خدمات سے ہر ماہ لاکھوں گھروں اور دکانوں تک خاموشی سے پہنچتا ہے۔
پاکستان کی درجنوں اداکارائیں اور ماڈلز ان کی بدولت شو بزنس انڈسٹری میں آئی ہیں۔ انہوں نے چالیس سال کی مدت میں سیکڑوں فیمیل ماڈلز کے کیرئیرز بنائے ہیں اور آج ان سے تربیت لے کر ہی وہ فیشن ماڈلز ساری دنیا کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں کام کررہی ہیں۔

پاکستان میں بیوٹی ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے میں ان جوڑی نے زبردست کام کیا ہے اور سب سے پہلے کوریا اور جاپان سے لیزرز، آکسیجنیٹرز اور دیگر مشینوں کو منگوا کر نصب کیا ہے جن کی لاگت لاکھوں میں ہے۔ اس طرح انہوں نے پاکستانی خواتین کے لیے کم لاگت میں بیوٹی کے عالمی معیارات کو متعارف کیا ہے اور قیمتیں کم کی ہیں تاکہ عام لوگ بھی جدید مشینوں سے مستفید ہوسکیں۔
اب ایک قدم آگے جاکر، انہوں نے پاکستان میں نئے ٹیلنٹ کو فروغ دینے کے لیے روز بیوٹی انسٹی ٹیوٹ قائم کردیا ہے جہاں سے ہر سال دو ہزار سے زائد لڑکیاں اور لڑکے بہترین تعلیم اور تربیت لے کر سارے ملک میں روزگار کمارہے ہیں۔ یہاں بھی درجنوں بچیوں اور بچوں کی فیسیں معاف یا آدھی ہیں۔
میری ان دونوں سے پہلی ملاقات تقریباً پچیس برس پہلے ہوئی تھی مگر میں ان کو آج بھی ویسا ہی پرجوش، پُرعزم اور منکسر دیکھتا ہوں۔ خدمات کی اتنی لمبی فہرست کے باوجود، دونوں انتہائی سادہ اور شہرت سے دور رہنے والے ہیں۔ دونوں ہمیشہ پسِ پردہ رہ کر دوسروں کو آگے بڑھانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

کورونا کے بحران میں جب بیوٹی پارلرز بند ہوگئے تو انہوں نے کسی کارکن کو ملازمت سے نہیں نکالا بلکہ مہینوں انہیں گھر بیٹھے تنخواہ دیتے رہے مگر کارکنوں کو مایوس نہیں ہونے دیا۔ شیخ احسان مہینوں تک اپنی گاڑی میں راشن بھر کر خود کراچی کے غریب گھرانوں اور محلوں تک جاتے اور خاموشی سے مشکلات کے شکار گھرانوں کی مدد کرتے رہے۔ اس دوران سارا بنک بیلینس خرچ کرڈالا۔ پھر جب بنک میں پیسے ختم ہوگئے تو بیوی سے زیور ادھار لے لیا اور وہ بھی بیچ کر لوگوں کی مدد کرتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک وقت نوبت یہ آگئی کہ اسٹاف کی تنخواہوں کے لیے بھی اکائونٹ میں پیسے نہ رہے تو بیوی سے کہا کہ گھر بیچ دیتے ہیں مگر تنخواہیں نہیں روکیں گے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس دوران لاک ڈائون ختم ہوگیا اور کاروبار چل پڑا تو یہ نوبت نہیں آئی وگرنہ یہ دونوں میاں بیوی خدمت خلق کے لیے اپنا گھر بیچنے پر بھی راضی تھے۔ میں نے اس دردمندی کی وجہ پوچھی تو احسان صاحب نے بتایا کہ میں چالیس سال پہلے کراچی میں ایک عام سا آدمی تھا۔ اس کے بعد کاروبار سے جو مال و دولت کمایا وہ لوگوں کی محبت سے ہی ملا ہے۔ آج جب میرے لوگ آزمائش میں ہیں تو میں کیسے انہیں اکیلا چھوڑ سکتا ہوں۔ اللہ نے مجھے اتنا دیا ہے۔ وہ مجھے اور بھی دے دے گا۔ میں کیوں اس مصیبت کی گھڑی میں بے سہارا لوگوں کی مدد نہ کروں۔
شیخ احسان اور بھابی فرحت احسان جیسے وسیع ذہن اور دل کے لوگ ہمارا سرمایہ ہیں۔ کراچی میں جب بھتے، پرچی اور گینگ وارز کا دور دورہ تھا اور کاروبار کرنا تقریباً ناممکن ہوگیا تھا، تب بھی یہ شہر اور شہریوں کے ساتھ اتنے ہی کمیٹڈ تھے اور کسی اور شہر کا رخ نہیں کیا تھا۔ اس ثابت قدمی کا ہی خدا نے انہیں انعام دیا اور آج یہ شہر میں معیار کی پہچان ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کم ہی لوگ انہیں چہرے سے پہچانتے ہیں۔
مسلسل محنت، ایمان داری اور خلوص سے یہ دونوں چالیس سال سے پاکستانیوں کی خاموشی سے خدمت کررہے ہیں۔ خدا ان کے عزم کو قائم رکھے۔ آمین


Comments
Post a Comment